یومِ مزدور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
سچ یہ مشہور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
کیسے دوں اس کو مبارک، میں خوشی کے دن کی
دیکھ رنجور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
تیرے ہونٹوں پہ مرے نام کی تکرار ہے کیوں
گر نہیں پیار، تو پھر پیار کا اظہار ہے کیوں
ساتھ چلنے کا ہے وعدہ تو سنبھل کر چلنا
دامن خاک پہ یوں تیز پا رفتار ہے کیوں
تمنا ہے سرِ دنیا بس اک یہ کام کر جاؤں
پیامِ سیدِ ابرار کو میں عام کر جاؤں
نجاست شرک و بدعت کی جہاں بھر سے میں دھو ڈالوں
کہ میں توحید کے اس نور کا اِتمام کر جاؤں
جہالت کے اندھیروں کو اجالوں شمع دل سے
چراغِ علم سے روشن میں ہر اک گام…
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا
میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا
اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا
ہاں! ضروری یہ لگا، بس یہی فِی الحال کیا
جسم و جاں کی تھکاوٹ سے میں چُور ہوں ایک مزدور ہوں
دولت ِ دردِ سے کتنا معمور ہوں ایک مزدور ہوں
تلخ لہجوں کا ہر زخم سہتا ہوا، تنہا رہتا ہوا
اپنے پیاروں سے جو اس قدر دور ہوں ایک مزدور ہوں