نظر میں طیبہ کا پیارا نگر سجاتے ہیں
عطا خدا نے کیا تھا ، سفر سجاتے ہیں
وہ پیارا گنبد خضری نگاہوں میں ہے بسا
ہم اس کی یاد سے جان و جگر سجاتے ہیں
نبی کے روضے کی جالی کے سامنے ہے جو
تصورات میں پیاری ڈگر سجاتے ہیں
نظر میں رہتے ہیں…
زمانے کو ہم آزمانے لگے
ستم گر ستم پھر سے ڈھانے لگے
عجب زندگی میں عجب موڑ ہے
کہ قاتل جنازے اٹھانے لگے
ہمارے دلوں پر لگاۓ نشاں
ہمیں پھر وہ ظالم منانے لگے
کچھ بھی تو پھر بنا اس کےدیکھا نہ تھا
عکس اوجھل کبھی اس کا ہوتا نہ تھا
رب نےبخشی تھی دولت اسے حسن کی
دید سے نینوں کا پیالہ بھرتا نہ تھا
عشق کی آگ میں تنہا جلتی رہی
حال دل کا کبھی اس نے پوچھا نہ تھا