ہم اپنے گھر کا رستہ بھول کر صحرا میں آ نکلے بجھانے پیاس اپنی ریت کے دریا میں آنکلے کبھی چہرے بھی دیتے ہیں کھلا دھوکا نگاہوں کو تلاش دوستاں
sad poetry sad poetry
ہر طرف ہے وبال وحشت کا دشت ہے ہم خیال وحشت کا ایک سا ڈر ہے روح و منظر میں دیکھیے اعتدال وحشت کا تیری رفتار تیز تر ہوگی دل
دنیا داری سے کٹ گیا ہوں میں اپنے اندر سِمٹ گیا ہوں میں کتنے لوگوں نے مجھ کو توڑا ہے کتنے لوگوں میں بٹ گیا ہوں میں
جب اُس نے پُوچھا حال تو ، میں نے کہا ؛ میں ٹھیک ہوں اُسے بھی میری بات سے ، یہی لگا میں ٹھیک ہوں یہ میرے لوگ حال میرا
فیصلہ جب اٹل نہیں ہوتا مسئلہ کوئی حل نہیں ہوتا یاد رکھنا مری نصیحت کو پیار کا کچھ بدل نہیں ہوتا ان مسائل میں آ کے الجھا ہوں جن مسائل