ہونٹوں پہ میرے ہر دم کچھ خاص ترانے ہیں
کچھ اور نہیں ہم دم بخشش کے بہانے ہیں
ہو جائے ہمارا بھی انجام کچھ ایسا ہی
کہہ دیں ہاں سبھی چھوڑو یہ سب تو دیوانے ہیں
وہ دن ہیں یاد جب سارے جہاں کے پاسباں ہم تھے
مقدر کے ستاروں سے مزین کہکشاں ہم تھے
کتابِ وقت پر لکھی سنہری داستاں ہم تھے
ہر اک بت جانے میں توحیدِ باری کی اذاں ہم تھے
ہاں دین نبی پاک کی تلوار عمر ہیں
کفار پہ اللہ کی یلغار۔۔۔۔ عمر ہیں
اسلام کے حالات پہ مشکل جو بنی ہو
ہر سمت بغاوت کی جو اک لہر اٹھی ہو
پھر نصرت حق دین کے انصار عمر ہیں
کفار پہ اللہ کی یلغار عمر ہیں
دل میں نام عمر لب پہ نامِ عمر
جانتے ہیں مسلماں مقامِ عمر
اہلِ حق کے لیے نرم لہجہ رہا
باطلوں کے لیے انتقامِ عمر
کیسے دورِ خلافت چلاتے رہے
دیکھتے ہیں جو ہم اہتمامِ عمر
وہ علم و عرفان سے منور
وہ تقوی و عجز کا سمندر
وہ رب کی جنت کے خود مسافر
مگر بھٹکتے ہوؤں کے رہبر
علم کی پاکیزگی سے روشن
عمل کی خوشبو سے وہ معطر
سخن شناور، دلیل برتر
رفیق ِ ایماں، خطیبِ منبر
جری محقق، حسیں مبصر
عظیم ناصح ، قوی مدبر…
کیا خوب ہی روشن تھا مکہ کی فتح کا دن
ایماں کی بقا کا دن، ہر بت کی فنا کا دن
ہجرت کی شبِ وحشت، تاریکی و تنہائی
فتح کی صبحِ روشن میں کیسے بدل پائی؟
اللہ کی نصرت ہی ہر آن نظر آئی
اک رب کے غلاموں پر اک رب کی عطا کا دن