دم توڑتی ہیں حسرتیں پل پل مرے دل میں ہر لمحہ مچی رہتی ہے ہلچل مرے دل میں
لئیق انصاری
دنیا جہان میں ہے ہمیں صرف تو پسند لہجہ ترا پسند ، تری گفتگو پسند رہتے ہیں اس لئے وہ ہمیشہ حجاب میں کرتے ہیں عشق میں وہ مری جستجو
یکسانیت سے تنگ ہیں تنہائی کی طرح دنیا میں جی رہے ہیں تماشائی کی طرح اپنی اگر سنائے سنے دوسروں کی بھی شنوائی بھی ہو قوتِ گویائی کی طرح
ہر طرف بے بسی کا عالم ہے جس کو دیکھو وہ شخص بے دم ہے کوئی انسانیت نہیں باقی مال کے آگے سب کا سر خم ہے مشرقی
اے خدا زندگی سہوں کیسے ؟! اک خلا ہے اسے بھروں کیسے ؟ اے خدا اس عجیب دنیا میں تو بتا تو سہی جیوں کیسے میرے پیارے خدا مری توبہ
کتابِ دل سمجھ سے ماورا ہے مگر یہ دل سمجھنے پر تُلا ہے ارے او دل تجھے یہ کیا ہوا ہے دوبارہ کیوں اسی در پر گیا ہے تری زلفِ
عنفوانِ شباب اللہ رے کم نہیں یہ عذاب اللہ رے کِھل اٹھا چہرہ صنم ہائے دیکھئے یہ گلاب اللہ رے اب محبت سکھائیں گے ہم کو آپ جیسے نواب اللہ
وحشتوں کا علاج ممکن ہے ہو اگر دید آج ممکن ہے میں محبت کے واسطے حاضر آپ کا مجھ پہ راج ممکن ہے شاہزادی غلام کو چاہے !!! یہ حسیں