ارضِ بنگال سے یہ صدا آ گئی میرے گلشن میں بادِ صبا آ گئی خونِ طلبا کی خوشبو سے مہکا چمن سوچا انجام تھا، ابتدا آ گئی دشمنوں کے ستم
علی حسن
سقوط ڈھاکہ جسد ملت کا وہ زخم جسے مندمل ہونے میں پچاس سال لگ گئے سقوط ڈھاکہ امت کے قلب و جگر میں اترا وہ زخم ہے جسے بھلایا نہیں
ارض پاک کی خاک کو چومتے ہونٹ، اپنا محل چھوڑ کر مہاجر کیمپوں میں رہنے والے پناہ گزین ... جی ہاں یہ ہے کہانی میرے پاکستان کی... تعمیر پاکستان کی!
تمنا ہے سرِ دنیا بس اک یہ کام کر جاؤں پیامِ سیدِ ابرار کو میں عام کر جاؤں نجاست شرک و بدعت کی جہاں بھر سے میں دھو ڈالوں کہ
بات تھی دل میں مگر پھر بھی تمہیں کہہ نہ سکا رہ گیا آنکھوں میں سب کچھ ہی تمہیں کہہ نہ سکا نام سن کر ہی ترا دل میں ہوا