اُس کے پاس جانے سے، راحتیں تو آئیں گی
دو پَلوں کی خوشیاں بھی ہاتھ میں تو آئیں گی
جِتنا وہ حسیں ٹھہرا، اُس پہ رشک کرنے کو
اِردگرد بستی سے مہ وشیں تو آئیں گی
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا
میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا
اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا
ہاں! ضروری یہ لگا، بس یہی فِی الحال کیا
تجھے پتہ نہ چلے کِتنا قیمتی ہے تُو
تجھے خبر ہی نہیں، تیرے مسکرانے سے
چمن میں کتنے نئے پھول، نِت نِکھرتے ہیں
ترا ہی رنگ بہاروں نے اُوڑھ رکھا ہے
تری نظر سے، مناظر کئی سنورتے ہیں
یہ تیرگی بھی بنی ہے جو رات کی زینت
حقیقتاً…