اے میرے ملک! تیری فضاؤں کی خیر ہو دریاؤں، جھیلوں، چشموں، ہواؤں کی خیر ہو اس دھرتی کے شہیدوں کو میرا سلام ہو اس ملک کے سپوتوں کی ماؤں کی
ثمر جمال
تیری آواز کی ضرورت ہے اک نئے ساز کی ضرورت ہے دل پہ چسپاں یہ اشتہار کِیا مجھ کو ہم راز کی ضرورت ہے
اُس کے پاس جانے سے، راحتیں تو آئیں گی دو پَلوں کی خوشیاں بھی ہاتھ میں تو آئیں گی جِتنا وہ حسیں ٹھہرا، اُس پہ رشک کرنے کو اِردگرد بستی
تم جدا ہوئے تو کیا، قربتیں نہیں گئیں دل سے اب بھی وصل کی خواہشیں نہیں گئیں ہجر یا وصال سب جاگ کر بسر ہوئے وقت کے بدلنے سے عادتیں
قدرت کے شاہکار! مرے یار، آ کے مل تیرا ہے انتظار مرے یار، آ کے مل میرا تو آج تک نہ طلبگار تھا کوئی کس کی ہے یہ پکار؟ مرے
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا ہاں! ضروری
دنیا داری سے کٹ گیا ہوں میں اپنے اندر سِمٹ گیا ہوں میں کتنے لوگوں نے مجھ کو توڑا ہے کتنے لوگوں میں بٹ گیا ہوں میں
تجھے پتہ نہ چلے کِتنا قیمتی ہے تُو تجھے خبر ہی نہیں، تیرے مسکرانے سے چمن میں کتنے نئے پھول، نِت نِکھرتے ہیں ترا ہی رنگ بہاروں نے اُوڑھ رکھا