کٹھن منزل پہ یاروں سے جفا کرنا نہیں آتا جو کرتے ہیں جفا ان سے وفا کرنا نہیں آتا وفاداری میں مخلص جو برے حالات میں بھی ہو مجھے ان
بچھڑے دوست شاعری
مرغوب یوں ہوئی ہمیں بابر اداۓ یار مانگا نہ کچھ خدا سے کبھی ماسواۓ یار ہم ہی نہیں جہاں میں فقط مبتلاۓ یار پھرتے ہیں بادشاہ بھی بن کر گداۓ
تو اگر کہہ دے تو اتنی سی جسارت کردوں اپنے جذبات کے شعلوں کو عبارت کردوں کوئی یوسف تھا جو بازار میں دیکھا میں نے سوچا زنداں کی سلاخوں کو
تُو یہ مت سوچ کیسا سوچتا ہوں ترے بارے میں اچھا سوچتا ہوں مہک جاتی ہیں میری ساری سوچیں میں تجھ کو جب بھی اپنا سوچتا ہوں مری بینائی گھٹتی
اک دن تو رفاقت میں بچھڑنا ہی پڑے گا فرقت کی اذیت سے گزرنا ہی پڑے گا انجام بھلا ہجر کا الفت کا عمق ہو کچھ روز مگر دل