غم کی دہلیز پہ تنہا ہوں میاں کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے بھلائی کا نشاں کوئی نہیں
در بدر ایسے بھٹکتا ہوں ، مکاں کوئی نہیں
اے خدا تیرے سوا میرا یہاں کوئی نہیں
آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے
بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے
تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم بھی کیا لوگ ہیں سب جھولیاں بھر لاتے ہیں
بے یقینی کا تو ماسہ بھی بہت ہوتا ہے
شکریہ…
نامرادی کے پسینے سے شرابور ہوں میں
اے مری تازہ تھکن دیکھ بہت چٌور ہوں میں
بات یہ ہے کہ کوئی آنکھ بھی دلچسپی لے
شیشۂ خواب دکھانے میں تو مشہور ہوں میں
اژدہے رینگتے ہیں ، بجلیاں گر جاتی ہیں
اور ستم یہ کہ عصا ہوں نہ یہاں طور ہوں میں…
خوشی کا ایک لمحہ اورغموں کا اک زمانہ کیوں
میں اک لا چار بندہ ہوں مجھے اتنا ستانا کیوں
محبت کے لبادے میں جفا تم نے جو کی ہم سے
محبت کر نہیں سکتے تو کر نے کا بہانہ کیوں