اُس کے پاس جانے سے، راحتیں تو آئیں گی
دو پَلوں کی خوشیاں بھی ہاتھ میں تو آئیں گی
جِتنا وہ حسیں ٹھہرا، اُس پہ رشک کرنے کو
اِردگرد بستی سے مہ وشیں تو آئیں گی
نامرادی کے پسینے سے شرابور ہوں میں
اے مری تازہ تھکن دیکھ بہت چٌور ہوں میں
بات یہ ہے کہ کوئی آنکھ بھی دلچسپی لے
شیشۂ خواب دکھانے میں تو مشہور ہوں میں
اژدہے رینگتے ہیں ، بجلیاں گر جاتی ہیں
اور ستم یہ کہ عصا ہوں نہ یہاں طور ہوں میں…
لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے
سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے
مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو
چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے نہیں لگتے
ہم کو چاہت تھی کسی اور کی، آیا کوئی ہے
بس یہی غم ہے، بتا ! اس کا مداوا کوئی ہے ؟
تو پکار اپنے سبھی چاہنے والوں کو ابھی !
میں بھی دیکھوں کہ ترا میرے علاوہ کوئی ہے
ہم توکل کے سفیر اور امیدوں کے اسیر
ہم تو پوچھیں گے ترے دشت میں دریا…