کس نے رشتوں سے جڑے رہنے کی قیمت مانگی
ہم نے چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ہجرت مانگی
مل کے اک رات ،چراغوں نے ،خداۓ کُن سے
آنکھ ,سورج کو دکھانے کی اجازت مانگی
وہ علم و عرفان سے منور
وہ تقوی و عجز کا سمندر
وہ رب کی جنت کے خود مسافر
مگر بھٹکتے ہوؤں کے رہبر
علم کی پاکیزگی سے روشن
عمل کی خوشبو سے وہ معطر
سخن شناور، دلیل برتر
رفیق ِ ایماں، خطیبِ منبر
جری محقق، حسیں مبصر
عظیم ناصح ، قوی مدبر…
خوابِ غفلت سے نکل جا ایک دن مرنا بھی ہے
اے مسلماں اب سنبھل جا ایک دن مرنا بھی ہے
چار دن کی روشنی ہے پھر اندھیری رات ہے
آج موقع ہے بدل جا ایک دن مرنا بھی ہے