جسم و جاں کی تھکاوٹ سے میں چُور ہوں ایک مزدور ہوں
دولت ِ دردِ سے کتنا معمور ہوں ایک مزدور ہوں
تلخ لہجوں کا ہر زخم سہتا ہوا، تنہا رہتا ہوا
اپنے پیاروں سے جو اس قدر دور ہوں ایک مزدور ہوں
نظر میں طیبہ کا پیارا نگر سجاتے ہیں
عطا خدا نے کیا تھا ، سفر سجاتے ہیں
وہ پیارا گنبد خضری نگاہوں میں ہے بسا
ہم اس کی یاد سے جان و جگر سجاتے ہیں
نبی کے روضے کی جالی کے سامنے ہے جو
تصورات میں پیاری ڈگر سجاتے ہیں
نظر میں رہتے ہیں…
اے خدا رحمتوں کی ہو مجھ پرعطا
تھک چکا ہےدکھوں سے یہ بندہ ترا
اے مسیحائے دوراں شفا چاہیے
اپنے ہراک مرض کی دواچا ہیے
تیری ہی مجھ کو ہر پل عطاچاہیے
جو قضا تھی عبادت ادا چاہیے