وہ علم و عرفان سے منور
وہ تقوی و عجز کا سمندر
وہ رب کی جنت کے خود مسافر
مگر بھٹکتے ہوؤں کے رہبر
علم کی پاکیزگی سے روشن
عمل کی خوشبو سے وہ معطر
سخن شناور، دلیل برتر
رفیق ِ ایماں، خطیبِ منبر
جری محقق، حسیں مبصر
عظیم ناصح ، قوی مدبر…
خوابِ غفلت سے نکل جا ایک دن مرنا بھی ہے
اے مسلماں اب سنبھل جا ایک دن مرنا بھی ہے
چار دن کی روشنی ہے پھر اندھیری رات ہے
آج موقع ہے بدل جا ایک دن مرنا بھی ہے
ہے مدینے کا سماں چاروں طرف
نور کی ہے کہکشاں چاروں طرف
بوسہ ء گنبد کو یہ بے تاب ہے
جھک رہا ہے آسماں چاروں طرف
یاد آئے پھر بہت حبشی بلال
گونجی مسجد جب اذاں چاروں طرف
ہم اپنے گھر کا رستہ بھول کر صحرا میں آ نکلے
بجھانے پیاس اپنی ریت کے دریا میں آنکلے
کبھی چہرے بھی دیتے ہیں کھلا دھوکا نگاہوں کو
تلاش دوستاں تھی ہم صف اعدا میں آنکلے
آؤ لوگو سب ملکر اک شجر لگاتے ہیں
سر پہ ٹھنڈی چھت والا ایک گھر بناتے ہیں
گرمیوں کی چھاؤں ہیں ، سردیوں کا ایندھن ہیں
کون کہتا ہے یہ پیڑ پھل نہیں بناتے ہیں؟