فلسفہ نفسیات اور حقیقی زندگی کی جانب ایک نظر | معاشرتی روئیے کے اہم موضوع پر آپ بیتی

psychology and real life

0 10

فلسفہ نفسیات کی وضاحت کے لئے پڑھئے احمد کی زندگی کے چند واقعات

احمد کی زندگی میں بظاہر ہنستے مسکراتے چہرے کے پیچھے ایک گہری تاریکی پنہاں تھی، جسے سمجھنا ہر فرد کے لیے ممکن نہ تھا ۔ وہ معاشرتی دباؤ اور ذمہ داریوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا وجود تھا ، نتیجتاً اس کی روح کے چراغ میں جلتی روشنی مدھم پڑنے لگی۔ احمد کے وجود میں گویا کشمکش کا طوفان برپا تھا جو اندر سے اس کے وجود کو کھوکھلا کر رہا تھا، اور یہ طوفان صرف اس کی ذہنی کیفیت کی حد تک محدود نہ تھا بلکہ؛ اس کے اثرات رفتہ رفتہ اب اس کی روح کو بھی اپنی زد میں لے رہے تھے ….
احمد شروع ہی سے ایک باہمت نوجوان تھا جس نے اسی عزم و ہمت کو بطور ہتھیار استعمال کرکے دُنیاوی زندگی کے ہر میدان میں کامیابیاں سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی تھی،کیونکہ یہ سب اس کی نظر میں بہت اہمیت کا حامل رہا تھا ۔ لیکن اس ظاہری چمک دمک کے پیچھے چھپے خطرات تک اس کی نگاہ نہ پہنچ سکی تھی وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ ۔۔۔۔
"اللّٰہ تعالیٰ نے کسی انسان کے دو دل نہیں بناۓ ” (القرآن )
اپنی ہی عمر کے کئ نوجوانوں میں ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے شمار کو دیکھ کر اس خوف نے بھی اس کے دل و دماغ میں اپنی جڑ پکڑ لی تھی ، لیکن فلحال وہ اس کیفیت کی اصل وجہ تلاش کرنے سے قاصر تھا۔ اس کی حالت اس وقت اس شیر سے الگ نہ تھی جو بظاہر بہادر مگر ، اندر سے شدید زخمی ہوتا ہے۔
آج کا ہر نوجوان غیر محسوس طریقے سے انہیں کیفیات پر مشتمل نفسیاتی مرض کا شکار ہے جسے (spiritual therapy) کی ضرورت ہے !!!
زندگی کے ایک موڑ پر، احمد کو احساس ہوا کہ معاشرتی دباؤ کی زنجیروں نے اسے اپنی سخت گرفت میں لیا ہوا ہے ۔ وہ دنیا کے سامنے تو مسکراتا ہے ، مگر تنہائیوں میں اس کا درد سے پھٹتا دل اور اس میں موجود خانے کئ زخموں سے چور ہیں اس زخمی ہوئے دل میں چھپے درد کی آہیں ہر تنہائ میں اس سے سرگوشیاں کرتی ہیں . اس کے وجود کے اندر خاموشیوں کی ایک دنیا آباد ہے مگر اس دنیا میں وہ اکیلا رہتا ہے اور یہی ایک احساس اس کی روح کو ضرب لگاتا ہے اور اسے گھائل کرتا ہے ۔
کئ اداس شامیں یوں ہی بغیر کسی نتیجے پر پہنچے گزرتی رہیں پھر ایک رات، جب احمد اپنی زندگی کے اس دور میں داخل ہوا جہاں اسے مقصد حیات کا اصل شعور اپنی جانب متوجہ کررہا تھا ، اس نے اپنی روح کو از سر نو تعمیر کا پیغام دیتے ہوۓ اس بیچین دل کو قرار دینے کے لیے قرآن کھولا اور بے ساختگی کے عالم میں اوراق کو پلٹتے ہوۓ یہ آیت اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے آگئی۔

‘بےشک!! دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے’ (القرآن)

۔ یہ الفاظ نہیں گویا چراغوں کی وہ ضیا تھی جس نے اس کے دل پر چڑھے تاریک پردوں کو چیر کر سپیدہ سحر میں تبدیل کردیا تھا ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اسے احساس ہوا کہ وہ جس سکون کی تلاش میں تھا، وہ متاع دنیا میں نہیں بلکہ اللہ کی یاد میں ہے۔

بالآخر یہ پیغام ایک صبحِ نو کی نوید بن گیا اور نویدِ سحر کی امید نے اس کی زندگی میں ایک بڑے انقلاب کی راہیں ہموار کردیں اور اسے نئ منزل کا پتہ دیا ، احمد نے اب اپنے دل کو اللہ کی محبت اور اس کی یاد سے منور کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ اس نے اپنے اندر ابھرتے شیطانی وسوسوں سے جنگ کے لیے قرآن و سنت کو اپنا ہتھیار بنالیا ۔اس حقیقت سے اس کی ذہن کی گرہیں کھلنے اور دل پر چھائ تاریکی چھٹنے لگی کہ :
"اور شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے”(القرآن)

اس کے قدموں کو جہاں لڑکھڑاہٹ محسوس ہوتی وہیں وہ اللہ کی پناہ طلب کرتا اور ہر قدم پر اس کی رحمت کا سوال کرتے ہوۓ شیطانی حملوں کے مخالف جدو جہد کرتا اور اپنے نفس کے بدلے جنت کے حصول کی امید لیے ثابت قدمی کا رویہ اختیار کرتا یہ وہ وقت تھا جب اسے اس بات کی صداقت پر یقین ہوا کہ اس نے حقیقی مقصد حیات کو سمجھنے میں دیر کر دی تھی
پھر ہوا کچھ یوں کہ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق رضاۓ الہیٰ کے حصول کا پختہ عزم کر لیا۔ معاشرتی دباؤ اور کامیابی کی دوڑ اب اس کے لیے اتنی اہم نہیں رہی جتنا اس کا اپنے خالق حقیقی کے ساتھ تعلق اس کے لیے اہم ہوچکا تھا
احمد کو اب شعور آچکا تھا کہ وہ گزشتہ کیفیات شیطانی قوتوں کا اس کے دل و دماغ کو اپنے قبضے میں کرنے کا نتیجہ تھا ، اور اسے اللہ سے دور کرنے کے لیے ابلیس کی جانب سے رچایا گیا گھناؤنا کھیل تھا ۔ احمد، کے ذہن میں بھی ایک وقت اپنے جیسے نوجوانوں کی طرح، یہی سوالات ابھرتے تھے کہ
"آخر میں ہی کیوں ، میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟”
مگر اب اس نے قرآن و سنت سے مکمل راہنمائ حاصل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا ۔
احمد نے اپنی روحانی تربیت کے مراحل کے دوران سمجھ لیا تھا کہ دنیا کی حقیقت ہی متاع الاغرور ہے اور قلب و روح کا سکون صرف اللہ کی یاد میں پوشیدہ راز ہے۔ اس نے اپنی ماند پڑتی روح کو قرآن کے نور سے روشن کیا اور معاشرتی دباؤ کے ساتھ وہ مسائل جو اسے کسی وقت ایک لمحہ چین سے نہ گزارنے دیتے تھے ان تمام مسائل کے حل کے طور پر اللہ کی رضا کو اپنانے کا فیصلہ کیا ۔

احمد کی کہانی عصر حاضر کے نوجوانوں میں ابھرتے ہوئے نفسیاتی مسائل اور ذہنی اضطراب کی حقیقت کو واضح کرتی اور اس کا صحیح حل پیش کرتی نظر آتی ہے۔۔۔

وہ اس راز کو انسان پر منکشف کرتی ہے کہ دنیاوی خواہشات اور مغربی رجحانات کی چمک دمک سے وہ اس حد تک مرعوب ہو چکا ہے کہ وہ اپنے اصل مقصد اور اسلامی انقلاب جو فکر و نظر کی اصل بصیرت تھا اس کی خواہش سے دور ہو گیا ہے۔ نتیجتاً، وہ ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوتا جارہا ہے،
جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو جاؤ گے، اللہ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ‘وہن’ ڈال دے گا "۔
یہ ‘وہن’ دنیا کی محبت اور موت سے خوف کا نام ہے، جو موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے نسل نو میں بڑھتی ہوئ بے سکونی میں ایک ٹھوس دلیل اور وہن کی بیماری میں مبتلا ہونے کی واضح علامت نظر آتی ہے

فلسفہ نفسیات یعنی نفسیاتی مسائل کا حل رضائے الہی کے حصول میں ہے

جب تک اس معاشرے میں موجود ہر فرد اپنی زندگی کا نصب العین اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضاے الہی کا اصول نہیں بنالیتا اس کے لیے کسی بھی صورت ذہنی اور نفسیاتی امراض نجات حاصل کرنا عین نا ممکن ہے !
احمد کی زندگی میں آنے والے تغیرات یقیناً ایک ایسی مثال ہیں جو دوسروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اس نے نہ صرف اپنی ذات کو بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنے کی دعوت پیش کی اور اس کی روح کی آزاد بستی میں وہ کسی پرندے کی طرح اپنی پرواز بلند کرتا رہا جہاں اس کی اڑان بھرنے کی جانب بڑھتا ہوا ہر قدم صرف اللہ کی محبت اور رضا کا نور پھیلانے کی غرض و غایت رکھتا ہے ۔

یہ میری زندگی کے مشاہدات اور میرے نقطہ نظر پر مشتمل ایک سوچ تھی جو میں نے آپ کے سامنے نفسیاتی مسائل اور ان کے حل کی تجویز کے متعلق پیش کی ہے ، مگر اس امر کی ضرورت اور اہمیت سے بھی فی الواقع انکار نہیں کہ ذہنی امراض جیسے ڈپریشن، شیزوفرینیا، اور انزائٹی انسانی زندگی اور اس سے جڑے معاملات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، ان امراض میں مبتلا لوگ اکثر ایسی چیزیں بھی محسوس کرتے ہیں جو حقیقت سے جڑتی نظر نہیں آتیں ، اور ان کے ذہن میں غیر حقیقی خیالات کی پرورش کی وجہ سے ان کے ذہن اور ان کے پورے وجود پر بری طرح اپنا اثر چھوڑتے ہیں ۔ قدرے افسوس کی بات ہے کہ ، ہم ایسے مریضوں کو غیر علمی اور نا تجربے کار افراد کے پاس لے جاتے ہیں جو نہ صرف ان کی حالت کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان سے جڑی زندگیوں کو تباہ کرنے میں اپنی کوئ کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم فوراً اچھے اور معیاری ماہر نفسیات سے رجوع کریں اور صحیح طور پر عملی اقدامات کرنے والے ہوں تاکہ ان مسائل کا مؤثر حل نکالنا اور معاشرتی فلاح و بہبود کے ساتھ ایک مضبوط و مستحکم قوم کی حقیقی تصویر پیش ہوسکے

از قلم: احمد شفیق

فلسفہ حیات سے انسانی نفسیات تک کا سفر ۔۔۔ پہلی قسط

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.