میں غلامِ شہہ بطحاء ہوں علی میرے ہیں میں وفادارِ صحابہ ہوں علی میرے ہیں میں علی شیرِخدا ابنِ ابی طالب سا دل میں صدیق کو رکھتا ہوں علی میرے
ہدہد الہ آبادی
زندگی فرعون جیسی موت موسیٰ سی ملے بدنگاہی کرکے چاہیں نورِ تقوی بھی ملے جھوٹ و غیبت، بغض و تہمت چھوڑنا ہرگز نہیں کام دوزخ کے مگر چاہت ہے جنت
فریب کھا کے شکایت سے اجتناب کیا مگر دوبارہ محبت سے اجتناب کیا تڑپتے دل کی تڑپ دیکھ کر بھی دانستہ کمال ہے ناں! مذمت سے اجتناب کیا
جہاں یہ دیکھ لے ہم سر اٹھا کے جیتے ہیں دلوں میں شوقِ شہادت جگا کے جیتے ہیں بے حیثیت ہے ہماری نظر میں یہ دنیا نبی کے عشق کا
حج کے ایّام کو خوبصورت کرو حاجیو! حج پہ تقویٰ کی نیت کرو سیلفیوں کی رَوِش سخت معیوب ہے خودنمائی کی کوشش کبھی مت کرو
خود سے الجھ رہا ہوں مجھے چھوڑ دیجیے خوش ہوں یا رورہا ہوں مجھے چھوڑ دیجیے ماضی کی دلفریب،حسیں،خوشنما تریں یادوں میں لاپتہ ہوں مجھے چھوڑ دیجیے
بکھر گیا ہوں دوبارہ سِمٹ نہیں سکتا شکستہ حال مسافر ہوں ڈٹ نہیں سکتا مرے دیار میں ہمدرد ہیں مگر تجھ سا کسی کو اپنا سمجھ کر لِپٹ نہیں سکتا
قہقہے میں اداسی چھپاتا ہوں میں کوئی پوچھے تو خوش ہوں بتاتا ہوں میں سب سے ہنس کر ملے سب سے باتیں کرے عادتِ یار پر مسکراتا ہوں میں
کب کِسے کیا کہا رب کو معلوم ہے کِس سے ہے رابطہ رب کو معلوم ہے بُھول کر آخرت کون کِس کی ہوئی کون کس کا ہوا رب کو معلوم
سہولت ہو تو آجانا محبت ہو تو آجانا کھلا ہے دل کا دروازہ ندامت ہو تو آجانا تجھے محفل، مجھے گوشہ نشینی سے محبت تھی نئی دنیا نئی باتوں سے
Load More