سناتا ہوں میں تم کو قصہ سہانا
کلام خدا میں یہ پائے زمانہ
چمکتا ہوا اک گھرانہ یہ دیکھو
یوں حکم الہی پہ جمنا بھی سیکھو
اک امر خدا پر خلیل اب چلے ہیں
فرشتے بھی حیرانگی میں پڑے ہیں
سَلام کرتی ہے اُس کو رِدا نَفاسَت سے
جو تیرے گال کو چُھو لے ہَوا نَفاسَت سے
ہَم اَیسے لوگوں کو ؛؛ جِن سے وفائیں زِندہ ہیں
فَلَک سے دیکھتا ہوگا خُدا نَفاسَت سے
خوابِ غفلت سے نکل جا ایک دن مرنا بھی ہے
اے مسلماں اب سنبھل جا ایک دن مرنا بھی ہے
چار دن کی روشنی ہے پھر اندھیری رات ہے
آج موقع ہے بدل جا ایک دن مرنا بھی ہے
ہم اپنے گھر کا رستہ بھول کر صحرا میں آ نکلے
بجھانے پیاس اپنی ریت کے دریا میں آنکلے
کبھی چہرے بھی دیتے ہیں کھلا دھوکا نگاہوں کو
تلاش دوستاں تھی ہم صف اعدا میں آنکلے
آؤ لوگو سب ملکر اک شجر لگاتے ہیں
سر پہ ٹھنڈی چھت والا ایک گھر بناتے ہیں
گرمیوں کی چھاؤں ہیں ، سردیوں کا ایندھن ہیں
کون کہتا ہے یہ پیڑ پھل نہیں بناتے ہیں؟