اٹھا لو اِس غنیمت سے کہ جو حصہ تمھارا ہے
لٹا دو سب غریبوں میں کہ جو حصہ ہمارا ہے۔
مرے الفاظ مجھ سے اب، بغاوت کر نہیں سکتے
کہ میں نے ان کی رگ رگ میں لہو اپنا اتارا ہے۔
سَلام کرتی ہے اُس کو رِدا نَفاسَت سے
جو تیرے گال کو چُھو لے ہَوا نَفاسَت سے
ہَم اَیسے لوگوں کو ؛؛ جِن سے وفائیں زِندہ ہیں
فَلَک سے دیکھتا ہوگا خُدا نَفاسَت سے
لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے
سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے
مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو
چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے نہیں لگتے
غموں کے گرداب میں گِھرا ہوں، مجھے بچا لے
مرے خدایا مَیں تھک چکا ہوں، مجھے بچا لے
کبھی تھا جس کو مَیں دل سے پیارا، بہت ہی پیارا
اب اس کے دل کا ہی مسئلہ ہوں، مجھے بچا لے
ہر طرف بے بسی کا عالم ہے
جس کو دیکھو وہ شخص بے دم ہے
کوئی انسانیت نہیں باقی
مال کے آگے سب کا سر خم ہے
مشرقی والدین کیا جانیں
مشرقی نسلِ نو کو کیا غم ہے
کیوں محبت کے نام پر ہر شخص
دل گرفتہ…
مری توجہ میں جس روز کچھ کمی ہوگی
یقین کر کہ تری جان پر بنی ہوگی
ہمارے گھر جو اندھیرے ہیں،کون مانے گا ؟
ہماری چاند ستاروں سے دوستی ہوگی !
تمھارے جیسا حسیں روۓ گا مرے غم میں!
تو میرے مرنے پہ مجھ کو بہت خوشی ہوگی
جو دِلسَتاں ہوں…