کیا کروں ترک ِ تعلق بھی تو حل کوئی نہیں
کر تو لوں ، پھر یہی کہتا ہوں کہ چل کوئی نہیں
لوگ درویش کی باتوں کا مزہ لیتے ہیں
کون کرتا ہے نصیحت پہ عمل ، کوئی نہیں
آسماں سے اس حسیں کے گھر کا منظر اور تھا
چاند سا جو حسن رو نیچے تھا، اوپر اور تھا
یہ بھی اک لذت دعاؤں میں تھی کیا تجھ سے کہیں
مانگتے ہم کچھ بھی رہتے تھے مقدر اور تھا
کس نے رشتوں سے جڑے رہنے کی قیمت مانگی
ہم نے چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ہجرت مانگی
مل کے اک رات ،چراغوں نے ،خداۓ کُن سے
آنکھ ,سورج کو دکھانے کی اجازت مانگی