بھاتی نہیں وفائیں مرے چارہ گر مجھے لگتا ہے اب تو عشق بھی شعلہ شرر مجھے جس دن شعور جھانکے گا گفتار سے مری رستے میں چھوڑ دیں گے مرے
urdu poetry ghazal
آج لفظوں سے دل لگی کرلے کچھ فراغت ہے شاعری کرلے باندھ لے تو خیال کی گرہیں قافیے جوڑ کر لڑی کرلے زندگی موج میں گزارے گا تو فقیروں سے
کیا کروں ترک ِ تعلق بھی تو حل کوئی نہیں کر تو لوں ، پھر یہی کہتا ہوں کہ چل کوئی نہیں لوگ درویش کی باتوں کا مزہ لیتے ہیں
کوئی جو بھی کہے، تم مان لو گے؟ بتاؤ اب میری، کیا جان لو گے؟ میں جتنے روپ بدلوں گا، یقیناً مجھے ہر بار تم پہچان لو گے۔
خواب روپوش نظارے سے بھی ہو جاتا ہے حوصلہ ٹوٹتے تارے سے بھی ہو جاتا ہے ہم نے اک آسرے پر عمر گنوا دی تو کٌھلا جسم بے زور سہارے
جوہری دیکھ بڑے کام کے پتھر آئے پھر کسی ہاتھ سے الزام کے پتھر آئے پھر درختوں پہ وہی صبر کا پھل پکنے لگا پھر وہی گردشِ ایّام کے پتھر
آسماں سے اس حسیں کے گھر کا منظر اور تھا چاند سا جو حسن رو نیچے تھا، اوپر اور تھا یہ بھی اک لذت دعاؤں میں تھی کیا تجھ سے
یکسانیت سے تنگ ہیں تنہائی کی طرح دنیا میں جی رہے ہیں تماشائی کی طرح اپنی اگر سنائے سنے دوسروں کی بھی شنوائی بھی ہو قوتِ گویائی کی طرح
تیری آواز کی ضرورت ہے اک نئے ساز کی ضرورت ہے دل پہ چسپاں یہ اشتہار کِیا مجھ کو ہم راز کی ضرورت ہے
زندگی بھر یہ کرامات نہیں ہو سکتی اب کبھی اس سے ملاقات نہیں ہو سکتی پیار کے کھیل میں چال ایسی چلی ہے اس نے ہجر کی ختم کبھی رات
Load More