کیا پوچھتے ہو ،زیست میں کیا تجربہ رہا ؟
وہ دوڑ ہی نہیں تھی جو میں دوڑتا رہا
وہ لفظ کیا تھے ،کس نے کہے تھے، خبر نہیں
بس اِتنا یاد ہے کہ مرا دل دُکھا رہا
حق جتانے کے لئے کچھ آبلہ پائی تو ہو
کم سے کم اِن ریگزاروں سے شناسائی تو ہو
بیٹھنے دو یار کے پہلو میں اے چارہ گرو
مجھ پہ بھی کچھ پَل فِدا دُنیا کی رعنائی تو ہو
اک دن کا ہم سفر بھی وہ کتنا عجیب تھا
میرا اور اس کا ربط بھی کتنا غریب تھا
اک بار مل کے مجھ سے وہ یہ کہہ کے چل دیا
شاید کہ یہ جدائی ہی اپنا نصیب تھا
دو انتہائیں چلتیں رہیں ساتھ ساتھ اور
کہتے رہے یہ لوگ وہ میرے قریب تھا
سوچا تو…