حق جتانے کے لئے کچھ آبلہ پائی تو ہو
کم سے کم اِن ریگزاروں سے شناسائی تو ہو
بیٹھنے دو یار کے پہلو میں اے چارہ گرو
مجھ پہ بھی کچھ پَل فِدا دُنیا کی رعنائی تو ہو
اک دن کا ہم سفر بھی وہ کتنا عجیب تھا
میرا اور اس کا ربط بھی کتنا غریب تھا
اک بار مل کے مجھ سے وہ یہ کہہ کے چل دیا
شاید کہ یہ جدائی ہی اپنا نصیب تھا
دو انتہائیں چلتیں رہیں ساتھ ساتھ اور
کہتے رہے یہ لوگ وہ میرے قریب تھا
سوچا تو…
تیرے ہونٹوں پہ مرے نام کی تکرار ہے کیوں
گر نہیں پیار، تو پھر پیار کا اظہار ہے کیوں
ساتھ چلنے کا ہے وعدہ تو سنبھل کر چلنا
دامن خاک پہ یوں تیز پا رفتار ہے کیوں
تمنا ہے سرِ دنیا بس اک یہ کام کر جاؤں
پیامِ سیدِ ابرار کو میں عام کر جاؤں
نجاست شرک و بدعت کی جہاں بھر سے میں دھو ڈالوں
کہ میں توحید کے اس نور کا اِتمام کر جاؤں
جہالت کے اندھیروں کو اجالوں شمع دل سے
چراغِ علم سے روشن میں ہر اک گام…
زمانے کو ہم آزمانے لگے
ستم گر ستم پھر سے ڈھانے لگے
عجب زندگی میں عجب موڑ ہے
کہ قاتل جنازے اٹھانے لگے
ہمارے دلوں پر لگاۓ نشاں
ہمیں پھر وہ ظالم منانے لگے