میرا رب تتلیوں کے پر پہ رنگوں کو سجاتا ہے
میرا رب جگنوؤں کو روشنی کرنا سکھاتا ہے
میرا رب ان خلاؤں کے اندھیروں سے ڈراتا ہے
میرا رب چاند تاروں سے سفر آساں بناتا ہے
وطن والو یہ سب مایوسیاں دل سے نکالو تم
قدم مضبوط کر کے دوسروں کو بھی سنبھالو تم
حوادث لاکھ حائل ہوں جہاں بھر کی ہو سنگینی
جواں جذبے سے اڑتے رہنا ہے یہ طرزِ شاہینی
میں پریشاں حال مولی ہے صدا استغفر اللہ
تیرے در پر آہ و زاری ہے ندا استغفر اللہ
میں رہا غافل یہاں دنیا کی شہرت و ذوق میں
تیری دھرتی پر کئے میں نے گناہ استغفر اللہ
جب رویوں میں بدلاؤ آ نے لگا
لمحہ لمحہ ہمیں خوں رُلانے لگا
پھیر کر چل دیا روخ وہ اوروں کے سنگ
دعوۂِ عشق جو تھا ٹِھکانے لگا
میری حالت پہ سب رو رہے تھے مگر.!
اک وہی شخص تھا مسکرانے لگا..!