میرے فاروق اعظم کو شجاعت زیب دیتی ہے
عدل بھی زیب دیتا ہے عدالت زیب دیتی ہے
گزر جائیں وہ جس جانب تو رستہ چھوڑدے شیطاں
مبارک چہرے پر ان کو جلالت زیب دیتی ہے
میرے اجداد نے مانگا چمن میں آشیاں لوگو
میرے رب نے عطا کر دی یہ فصل گلستاں لوگو
اگرچہ ظلم و تاریکی میں ڈوبا ہے جہاں لوگو
مگر ہم کو ہمارے رب سے ہے حکم اذاں لوگو
اُس کے پاس جانے سے، راحتیں تو آئیں گی
دو پَلوں کی خوشیاں بھی ہاتھ میں تو آئیں گی
جِتنا وہ حسیں ٹھہرا، اُس پہ رشک کرنے کو
اِردگرد بستی سے مہ وشیں تو آئیں گی
مجھے ہے یاد مدینے کی وہ ہوا اب تک
دل و نظر میں بسی ہے وہی فضا اب تک
مزے مزے سے وہاں پر کھجور کھاتے تھے
نبی کے شہر کی وہ یاد ہے غذا اب تک
نبی کے شہر میں زم زم بھی خوب پیتے تھے
مزہ ملا جو ، نہیں میں بھلا سکا اب تک
میں آنکھیں بند…