میں پریشاں حال مولی ہے صدا استغفر اللہ
تیرے در پر آہ و زاری ہے ندا استغفر اللہ
میں رہا غافل یہاں دنیا کی شہرت و ذوق میں
تیری دھرتی پر کئے میں نے گناہ استغفر اللہ
کیا پوچھتے ہو ،زیست میں کیا تجربہ رہا ؟
وہ دوڑ ہی نہیں تھی جو میں دوڑتا رہا
وہ لفظ کیا تھے ،کس نے کہے تھے، خبر نہیں
بس اِتنا یاد ہے کہ مرا دل دُکھا رہا
حق جتانے کے لئے کچھ آبلہ پائی تو ہو
کم سے کم اِن ریگزاروں سے شناسائی تو ہو
بیٹھنے دو یار کے پہلو میں اے چارہ گرو
مجھ پہ بھی کچھ پَل فِدا دُنیا کی رعنائی تو ہو
اک دن کا ہم سفر بھی وہ کتنا عجیب تھا
میرا اور اس کا ربط بھی کتنا غریب تھا
اک بار مل کے مجھ سے وہ یہ کہہ کے چل دیا
شاید کہ یہ جدائی ہی اپنا نصیب تھا
دو انتہائیں چلتیں رہیں ساتھ ساتھ اور
کہتے رہے یہ لوگ وہ میرے قریب تھا
سوچا تو…
یومِ مزدور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
سچ یہ مشہور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
کیسے دوں اس کو مبارک، میں خوشی کے دن کی
دیکھ رنجور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
تیرے ہونٹوں پہ مرے نام کی تکرار ہے کیوں
گر نہیں پیار، تو پھر پیار کا اظہار ہے کیوں
ساتھ چلنے کا ہے وعدہ تو سنبھل کر چلنا
دامن خاک پہ یوں تیز پا رفتار ہے کیوں