سَلام کرتی ہے اُس کو رِدا نَفاسَت سے
جو تیرے گال کو چُھو لے ہَوا نَفاسَت سے
ہَم اَیسے لوگوں کو ؛؛ جِن سے وفائیں زِندہ ہیں
فَلَک سے دیکھتا ہوگا خُدا نَفاسَت سے
وہ علم و عرفان سے منور
وہ تقوی و عجز کا سمندر
وہ رب کی جنت کے خود مسافر
مگر بھٹکتے ہوؤں کے رہبر
علم کی پاکیزگی سے روشن
عمل کی خوشبو سے وہ معطر
سخن شناور، دلیل برتر
رفیق ِ ایماں، خطیبِ منبر
جری محقق، حسیں مبصر
عظیم ناصح ، قوی مدبر…
آؤ لوگو سب ملکر اک شجر لگاتے ہیں
سر پہ ٹھنڈی چھت والا ایک گھر بناتے ہیں
گرمیوں کی چھاؤں ہیں ، سردیوں کا ایندھن ہیں
کون کہتا ہے یہ پیڑ پھل نہیں بناتے ہیں؟
غموں کے گرداب میں گِھرا ہوں، مجھے بچا لے
مرے خدایا مَیں تھک چکا ہوں، مجھے بچا لے
کبھی تھا جس کو مَیں دل سے پیارا، بہت ہی پیارا
اب اس کے دل کا ہی مسئلہ ہوں، مجھے بچا لے
میرا رب تتلیوں کے پر پہ رنگوں کو سجاتا ہے
میرا رب جگنوؤں کو روشنی کرنا سکھاتا ہے
میرا رب ان خلاؤں کے اندھیروں سے ڈراتا ہے
میرا رب چاند تاروں سے سفر آساں بناتا ہے