ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دیے رہِ سیاہ پہ پھینکا ، مگر دیے نہ دیے بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو ترے جمال کی عادت نے
زبیر حمزہ
جوہری دیکھ بڑے کام کے پتھر آئے پھر کسی ہاتھ سے الزام کے پتھر آئے پھر درختوں پہ وہی صبر کا پھل پکنے لگا پھر وہی گردشِ ایّام کے پتھر
پھرتے ہوئے دکھوں کے گھنے جنگلات ، ماں میں تھک گیا ہوں ماں ! مری کُل کائنات ماں میں آج کُل جہان کے احسان اُتار دوں لیکن وہ تیرے بیچے