شبِ سیاہ میں کچھ اِس لیے عیاں تھے ہم زمیں پہ پھیلی ہوئی گَردِ کہکشاں تھے ہم چراغ اور ہَوا میں نہ تھا گُریز کوئی اک ایسی طرزِ ضیافت کے
اردو غزل
فریب کھا کے شکایت سے اجتناب کیا مگر دوبارہ محبت سے اجتناب کیا تڑپتے دل کی تڑپ دیکھ کر بھی دانستہ کمال ہے ناں! مذمت سے اجتناب کیا
دم توڑتی ہیں حسرتیں پل پل مرے دل میں ہر لمحہ مچی رہتی ہے ہلچل مرے دل میں
آج لفظوں سے دل لگی کرلے کچھ فراغت ہے شاعری کرلے باندھ لے تو خیال کی گرہیں قافیے جوڑ کر لڑی کرلے زندگی موج میں گزارے گا تو فقیروں سے
ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دیے رہِ سیاہ پہ پھینکا ، مگر دیے نہ دیے بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو ترے جمال کی عادت نے
دل بھلا عارضی خوشیوں میں کہاں لگتا ہے اب تو ہر درد ہمیں نش٘ہ ِ جاں لگتا ہے یہ زیارت گہ ِ حسرت ہے ذرا دھیان رہے ان پہاڑوں پہ
اشک کیوں آنکھوں سے جاری ہے بتاؤں کیسے زندگی کیسے گزاری ہے بتاؤں کیسے تیری یادوں کو جو سینے میں لیۓ پھرتا ہوں کس قدر بار یہ بھاری ہے بتاؤں
کیا کروں ترک ِ تعلق بھی تو حل کوئی نہیں کر تو لوں ، پھر یہی کہتا ہوں کہ چل کوئی نہیں لوگ درویش کی باتوں کا مزہ لیتے ہیں
کوئی جو بھی کہے، تم مان لو گے؟ بتاؤ اب میری، کیا جان لو گے؟ میں جتنے روپ بدلوں گا، یقیناً مجھے ہر بار تم پہچان لو گے۔
خواب روپوش نظارے سے بھی ہو جاتا ہے حوصلہ ٹوٹتے تارے سے بھی ہو جاتا ہے ہم نے اک آسرے پر عمر گنوا دی تو کٌھلا جسم بے زور سہارے
Load More