کیا کروں ترک ِ تعلق بھی تو حل کوئی نہیں
کر تو لوں ، پھر یہی کہتا ہوں کہ چل کوئی نہیں
لوگ درویش کی باتوں کا مزہ لیتے ہیں
کون کرتا ہے نصیحت پہ عمل ، کوئی نہیں
وہ دن ہیں یاد جب سارے جہاں کے پاسباں ہم تھے
مقدر کے ستاروں سے مزین کہکشاں ہم تھے
کتابِ وقت پر لکھی سنہری داستاں ہم تھے
ہر اک بت جانے میں توحیدِ باری کی اذاں ہم تھے
میں بہت دنوں سے اداس ہوں تو مری اداسی کو دور کر
اے مرے خدا تو کرم یہ کر مری ظلمتوں کو بھی نور کر
مرا دل یہ ٹوٹا ہوا ہے اب مری آنکھ بھی ہے برس رہی
مرے دل کو بھی تو سکون دے مری آنکھ میں بھی سرور کر
درد میں ہوں مبتلا میں دل میں تیرا زخم ہے
تو نے مجھ کو دے دیا پر کتنا گہرا زخم ہے
جس کو اپنا میں نے جانا وہ منافق بن گیا
غیر کا ہرگز نہیں یہ میرا اپنا زخم ہے
یہ خواہش جو رہتی جینے کی دل میں
یہ آتش جو جلتی ہے سینے میں اپنے
تمنا یہی ہے کہ ہو ایک خیمہ
وہ خیمہ مدینے کی راہ میں سجا ہو
یہ منظر بھی اپنا مقدر بنے اب
شجر یہ دل و جاں پہ سایہ کرے اب