مہذب بات کرتے ہیں تو شیرینی ٹپکتی ہے
ثمر جس میں لگا ہوتا ہے وہ ڈالی لچکتی ہے
اجالے میں جو جیسا ہے نظر آتا ہے ویسا ہی
تمہاری شخصیت لیکن اندھیرے میں چمکتی ہے
اٹھا لو اِس غنیمت سے کہ جو حصہ تمھارا ہے
لٹا دو سب غریبوں میں کہ جو حصہ ہمارا ہے۔
مرے الفاظ مجھ سے اب، بغاوت کر نہیں سکتے
کہ میں نے ان کی رگ رگ میں لہو اپنا اتارا ہے۔
کس نے رشتوں سے جڑے رہنے کی قیمت مانگی
ہم نے چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ہجرت مانگی
مل کے اک رات ،چراغوں نے ،خداۓ کُن سے
آنکھ ,سورج کو دکھانے کی اجازت مانگی
وہ علم و عرفان سے منور
وہ تقوی و عجز کا سمندر
وہ رب کی جنت کے خود مسافر
مگر بھٹکتے ہوؤں کے رہبر
علم کی پاکیزگی سے روشن
عمل کی خوشبو سے وہ معطر
سخن شناور، دلیل برتر
رفیق ِ ایماں، خطیبِ منبر
جری محقق، حسیں مبصر
عظیم ناصح ، قوی مدبر…