نم ہوا خود نہ کوئی موج نتھاری تو نے عمر کس دجلۂ حیرت میں گزاری تو نے رحم ہر شخص کی آنکھوں میں نظر آتا ہے دیکھ حالت جو بنا
ضمیر قیس
دل بھلا عارضی خوشیوں میں کہاں لگتا ہے اب تو ہر درد ہمیں نش٘ہ ِ جاں لگتا ہے یہ زیارت گہ ِ حسرت ہے ذرا دھیان رہے ان پہاڑوں پہ
کیا کروں ترک ِ تعلق بھی تو حل کوئی نہیں کر تو لوں ، پھر یہی کہتا ہوں کہ چل کوئی نہیں لوگ درویش کی باتوں کا مزہ لیتے ہیں
خواب روپوش نظارے سے بھی ہو جاتا ہے حوصلہ ٹوٹتے تارے سے بھی ہو جاتا ہے ہم نے اک آسرے پر عمر گنوا دی تو کٌھلا جسم بے زور سہارے
آسماں سے اس حسیں کے گھر کا منظر اور تھا چاند سا جو حسن رو نیچے تھا، اوپر اور تھا یہ بھی اک لذت دعاؤں میں تھی کیا تجھ سے
آنکھ کی کھاری بوندوں میں اک میٹھا منظر طیبہ کا قبلہ رو منظر میں بیٹھا ہے ، پیغمبر طیبہ کا دیکھوں جس بھی سمت نظارے طیبہ ہی کے سارے ہیں
ہوا سے دھند کا جیسے حصار ٹوٹتا ہے یہ زعم ِ دل بھی سر ِ کوئے یار ٹوٹتا ہے کبھی کبھی مجھے ہوتی ہے دشمنوں کی طلب کبھی کبھی تو
آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی
نامرادی کے پسینے سے شرابور ہوں میں اے مری تازہ تھکن دیکھ بہت چٌور ہوں میں بات یہ ہے کہ کوئی آنکھ بھی دلچسپی لے شیشۂ خواب دکھانے میں تو
کچھ اور سست شب ِ انہدام ہو گئی ہے گھڑی کو تیز گھمایا تھا ، جام ہو گئی ہے گزر رہی ہے تو سوچا تمھیں بتائیں کیا یہ عمر کس