خوشی کا ایک لمحہ اورغموں کا اک زمانہ کیوں
میں اک لا چار بندہ ہوں مجھے اتنا ستانا کیوں
محبت کے لبادے میں جفا تم نے جو کی ہم سے
محبت کر نہیں سکتے تو کر نے کا بہانہ کیوں
ہر اک افق پر ضیائے رحمت کے رنگ چھائے، نبی جب آئے
ہزاروں آنکھوں میں خوابِ امید جگمگائے نبی جب آئے
وہ روم و ایران کو پچھاڑا، غرورِ اہل یہود توڑا
حنین احزاب اور بدر کے میداں سجائے نبی جب آئے
مہذب بات کرتے ہیں تو شیرینی ٹپکتی ہے
ثمر جس میں لگا ہوتا ہے وہ ڈالی لچکتی ہے
اجالے میں جو جیسا ہے نظر آتا ہے ویسا ہی
تمہاری شخصیت لیکن اندھیرے میں چمکتی ہے
اٹھا لو اِس غنیمت سے کہ جو حصہ تمھارا ہے
لٹا دو سب غریبوں میں کہ جو حصہ ہمارا ہے۔
مرے الفاظ مجھ سے اب، بغاوت کر نہیں سکتے
کہ میں نے ان کی رگ رگ میں لہو اپنا اتارا ہے۔